کیا انٹرپول کبھی ہمارے مطلوب ملزمان واپس بھیجے گی؟
![]() |
| کیا انٹرپول کبھی مجرم پاکستان کے حوالے کرے گی؟" "مبینہ پولیس مقابلے... انصاف یا پردہ پوشی؟" |
باسمہ: ماورائے عدالت کارروائیاں، عوام کا اعتماد اور ریاستی ذمہ داری
حال ہی میں سامنے آنے والے مبینہ پولیس مقابلوں نے پاکستانی معاشرے، عدلیہ اور حکومت کی ساکھ پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ جب بڑے ملزم گرفتار ہو کر بھی عدالت میں پیش نہیں کیے جاتے بلکہ مبینہ طور پر پولیس مقابلوں میں مارے جاتے ہیں تو یہ محض قانون کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ ریاست کے اداروں پر عوامی اعتماد کا زوال ہے۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی ادارے، خصوصاً انٹرپول، مستقبل میں ہمارے مطلوب افراد کو واپس بھیجیں گے؟ انٹرپول کے پاس قانونی طریقہ کار اور ملکوں کے درمیان تعاون کے ضوابط ہیں۔ مگر جب ملزمان کو گرفتاری کے بعد بھی عدالت تک پہنچنے کا محفوظ راستہ میسر نہ ہو تو بین الاقوامی پارٹنر بھی اسی خطرے کا حساب کر کے فیصلہ کریں گے۔ اس کے سیاسی اور اخلاقی دونوں پہلو ہوتے ہیں۔
مبینہ پولیس مقابلوں کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ملزمان کے پاس ان کے ماسٹر مائنڈ یا ہینڈلرز کے نام ہوتے ہیں، جو کبھی کبھار حکومت یا نیم سرکاری حلقوں سے وابستہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ملزم کا ائیرپورٹ سے تھانے تک پہنچ جانا نہ صرف ثبوتوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے بلکہ متعلقہ افراد کے سامنے احتساب کے امکانات کے لیے بھی کلیدی ہے۔ اگر ملزم کو گرفتار کر کے منظر عام سے ہٹا دیا جائے تو بڑے نیٹ ورک اور اصل مذموم محرکات کبھی سامنے نہیں آتیں۔
یہ عمل ریاست اور قانون کے لیے بھی بڑا طمانچہ ہے۔ عام شہریوں کے لیے ریاست اور پیشہ ور قاتلوں میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب پولیس کا کوئی مخصوص شعبہ، جیسا کہ پنجاب پولیس کا CCD ڈیپارٹمنٹ، عام شہریوں کے لیے خوف کی علامت بن جائے اور اس کے بعض اہلکار مبینہ طور پر حبسِ بے جا یا نجی جگہوں پر رکھ کر تشدد کے مرتکب پائے جائیں تو ریاست کا مؤقف اور بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ ادارہ قانون نافذ کرنے والا ہونا چاہیے، خوف پیدا کرنے والا نہیں۔
گزارِش ہے کہ 26 نومبر 2024 کے بعد موجودہ حکمران اتحاد کو ماورائے عدالت کارروائیوں سے حوصلہ ملا ہے اور بظاہر کچھ سیاستدان اپنے پرانے کرائے کے قاتلوں کو منظر سے ہٹوانے میں ملوث دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو یہ تشویشناک اور خطرناک ہے، کیونکہ آئین، قانون اور عدلیہ کے احترام کے بغیر ریاست خود بے قابو ہو کر اپنے خاتمے کی جانب بڑھتی ہے۔
ہمیں فوراً سوچنا ہوگا: ہم کس راہ پر جا رہے ہیں؟ عوامی خوف کے ذریعے جعلی مینڈیٹ کو طویل کرنا کبھی دیرپا حل نہیں ہو سکتا۔ ماورائے عدالت کارروائیاں وقتی طور پر خوف پیدا کر سکتی ہیں، مگر وہ معاشرے میں قانون کے تئیں عدم اعتماد پیدا کرتی ہیں اور انتہا میں ریاستی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
نتیجہ اور مطالبات
- گرفتاریوں کے بعد ملزمان کو محفوظ طریقے سے عدالت میں پیش کیا جائے۔
- ماورائے عدالت واقعات کی آزادانہ، شفاف اور جلد از جلد تحقیقات ہوں۔
- متعلقہ اداروں اور اہلکاروں کے خلاف شواہد کی روشنی میں قانونی کارروائی کی جائے۔
- انٹرنیشنل پارٹنرز کے ساتھ شفاف تعاون کو یقینی بنایا جائے تاکہ ملک کو مطلوب افراد کی حوالگی کا عمل قانون کے مطابق ہو۔
- عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے آئینی اداروں، عدلیہ اور میڈیا کی آزادانہ شمولیت ضروری ہے۔
خدارا رک جائیے اور سوچئیے کہ ہم کس ملک کی تعمیر کر رہے ہیں۔ خوف کے بجائے قانون کی بالادستی، شفافیت اور احتساب کو فروغ دینا ہی ہمارا راستہ ہونا چاہیے۔

0 Comments